پندار ان آوازوں کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم رہا ہے جو اکثر مین اسٹریم میڈیا میں پسماندہ رہتی ہیں۔ اخبار نے متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور کالم نگاروں کو اپنی رائے اور نقطہ نظر کے اظہار کے لیے جگہ فراہم کی ہے اور اسکی چلتی پھرتی مثال میں ہوں۔جولائی ۲۰۲۰ جب میں نے اپنا مضمون ـ’’کتنا طوطے کو پڑھایا پھر بھی وہ حیواں ہی رہا‘‘ اخبار میں شائع کرنے کے لیے ارسال کیا تھا، اس کے بعد بلاناغہ میں پندار چیک کرتا کہ شاید آج میرا مضمون اس میں شائع ہوا ہو لیکن ہر روز مایوسی ہی ہاتھ آتی تھی، اور پھر جب ہفتے گزرنے کے بعد بھی میرا مضمون شائع نہیں ہوا تو میں نے چیک کرنا چھوڑ دیا، ایک ۱۷ سالہ نوجوان قلمکار کے لیے یہ کافی مایوس کن تھا۔ویسے تو میدان تحریر کا شہہ سوار زمانہ طالب علمی سن ۲۰۱۳ سے ہی رہا ہوں لیکن اخبار میں مضامین شائع ہونے والی خوشی اب تک میسر نہیں ہو سکی تھی۔ ملک کے بہت سارے اخبارات میں مضامین ارسال کرتا تھا لیکن یا تو میرے مضمون قابل اشاعت نہیں رہے ہونگے یا کسی مدیر نے ایک نوجوان قلمکار کو موقع دینے کا نہیں سوچا ہوگا۔ بحرحال ۱۹ ستمبر ۲۰۲۰ کو میرے پاس ایک اجنبی نمبر سے فون آتا ہے کہ آپ کا مضمون پندار میں شائع ہوا ہے، اور وہ اپنے تاثرات کا اظہار کرنے لگے، میں نے جلدبازی میں شکریہ ادا کرتے ہوئے فون رکھا اور نیٹ پر اخبار چیک کرنے لگا ، شاید میرے موبائل میں نیٹ نہیں تھا یا ویب سائٹ مانند کچھوا چل رہا تھا،اس وقت کے احساس کو قلمبند نہیں کیا جا سکتا۔ جب نیٹ پر چیک نہیں کر سکا تو بھاگے بھاگے گھر آیا اور اخبار اٹھایا، صفحہ در صفحہ پلٹتا گیا اور صفحہ نمبر ۷ پہ آکر پلکیں جھپکنا بھول گئیں، آنسووں نے آنکھوں کے اردگرد احاطہ بنا لیا ۔۔۔نمدیدہ۔۔۔آہ ۔۔۔کچھ احساسات شاید انسان قلمبند نہیں کر سکتا ۔وہ دن تھا اور آج کا ایک دن ہے ۔۔گاہے بگاہے میں مضامین ارسال کرتا رہتا ہوں ،اور شاید ہی کوئی مضمون ایسا ہوگا جسے اس اخبار نے اپنے آغوش میں جگہ نہ دی ہو۔ پندار صرف ایک اخبار نہیں رہا بلکہ ہمارے معاشرے کا عکاس ہے۔ اس نے ہماری کمیونٹی کی فتوحات اور مصیبتوں کا احاطہ کیا ہے، اور بے آواز لوگوں کو آواز دی ہے۔ اخبار نے اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے، اور تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے۔ اخبار کی کامیابی اس کے صحافیوں اور عملے کی محنت اور لگن کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے انتھک محنت کی ہے کہ سنسر شپ اور سیاسی دباؤ جیسے چیلنجوں کے باوجود اخبار اپنی اقدار اور معیارات کو برقرار رکھے۔ جیسا کہ پندار اپنی 50 ویں سالگرہ منا رہا ہے، یہ اپنی وراثت اور ریاست اور اس کے لوگوں پر اس کے اثرات پر غور کرنے کا ایک موقع ہے۔ یہ مستقبل کی طرف دیکھنے کا بھی وقت ہے اور صحافت کی اپنی بنیادی اقدار پر قائم رہتے ہوئے اختراعات اور ارتقاء جاری رکھیں۔ پندارکی کامیابی کے 50 سال ایک قابل ذکر کارنامہ ہے جو تسلیم اور جشن کا مستحق ہے۔ یہ اخبار بہار کے لوگوں کے لیے ایک آواز رہا ہے، اور معیاری صحافت کے لیے اس کی وابستگی نے اسے اپنے قارئین کا اعتماد اور احترام حاصل کیا ہے۔ یہ ہے پندار کی مسلسل کامیابی کے کئی سال!
بہار کے ایک معروف اردو اخبار پندارنے اپنے کامیاب سفر کے 50 سال مکمل کر لیے ہیں۔ یہ سنگ میل اشاعت کے غیر جانبدارانہ صحافت سے وابستگی اور اس کے وفادار قارئین کی حمایت کا ثبوت ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے، پندار بہار کے لوگوں، خاص طور پر اردو بولنے اور پڑھنے والوں کے لیے خبروں اور معلومات کا ایک قابل اعتماد ذریعہ رہا ہے۔ اخبار اپنے قارئین کی زندگیوں جیسے سیاست، معاشیات، سماجی بہبود اور ثقافت کو متاثر کرنے والے مسائل پر رپورٹنگ میں سب سے آگے رہا ہے۔ اس نے رائے عامہ کی تشکیل اور ریاست کے لوگوں کو درپیش چیلنجوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سالوں کے دوران، پندار اپنے قارئین کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوا ہے۔ اس نے اپنے قارئین کو بروقت اور موثر انداز میں خبریں اور معلومات فراہم کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز اور اختراعات کو اپنایا ہے۔ اخبار نے اپنے قارئین کی تعداد اور کوریج کے لحاظ سے بھی اپنی رسائی کو بڑھایا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح بچپن میں میں صبح کے اخبار کے آنے کا بے تابی سے انتظار کرتا تھا۔ تازہ ترین خبریں پڑھنے اور بیرونی دنیا کی جھلک دیکھنے کا جوش و خروش بے مثال تھا۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا، پندار کے لیے میری محبت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اخبار نے دنیا کے بارے میں میرے نقطہ نظر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، پندار کی کامیابی صرف اس کی تکنیکی ترقی یا توسیع کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر صحافت کے اعلیٰ ترین معیارات سے وابستگی کی وجہ سے ہے۔ اخبار نے ہمیشہ اپنی دیانتداری اور غیر جانبداری کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کے قارئین کو درست اور غیر جانبدارانہ خبریں ملیں۔
رابطہ:imujahid013@gmail.com